گندم کی مختلف اقسام کے اُگاؤ پر نمکیات کا اثر

ڈاکٹر رضوان احمد *
ڈاکٹر محمدارشاداﷲ *
ڈاکٹر ریاض حسین قریشی**
ڈاکٹر جاوید اختر**

Abstract
Salinity is a major problem in Pakistan as 6.67 million hectares of land is affected by it causing a loss of 20 billion rupees annually due to decreased crop yield. Low water absorption by seeds resulting a decrease in seed germination is due to salinity as various enzymatic activities are affected by low water availability during germination. An experiment was conducted in saline to see the effect of salinity and soaking time on germination of three wheat genotypes i.e. Pasban 90, SARC-1 and LU 26-S at two salinity levels (5dSm1 and 10dSm1). Seeds were placed on the filter paper in trays, using completely randomized design (CRD) with twelve repeats. Before placing seeds of each genotype were soaked for 0, 16, 24 and 32 hours. SARC-1 was found to be the best salt tolerant variety showing 75 and 60% germination followed by LU26-S (70 and 55%) under 5dSm1 and 10dSm1 respectively. Results also revealed that germination percentage was significantly approved than control (unsoaked). Among soaking time treatments 24 hours was
found to be the best for all wheat genotypes.
تعارف ) (Introduction:


زمین میں موجود نمکیات کی کثرت کی وجہ سے پاکستان کے زرعی رقبے کا زیادہ حصہ کم پیداواری یا بنجر ہوچکا ہے۔ بارش کم ہونے کی وجہ سے ان اراضیات میں دستیاب پانی نمکیات کو پودے کی جڑوں سے خارج نہیں کرپاتا۔ نتیجتاً حل شدہ نمکیات زمینی کالم میں جمع ہوجاتے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ اہم کیلیشیم اور میگنیشیم کے بعد سوڈیم (Na) ہے۔ نمکیات کے جمع ہونے کا یہ عمل صدیوں سے جاری ہے۔ پاکستان کے خطے میں تاخیری طور پر نمکیات جمع ہونے کا عمل انیسویں صدی عیسوی کے آخر میں شروع ہوا۔ نمک پذیری کے عمل کی بڑی وجوہ میں ناکافی اور غیرمنصفانہ آب پاشی کی وجہ سے زمینی کالم میں نمکیات کی غیرمساویانہ تقسیم، معمولی اخراج، سیم اورغیرمعیاری زیرزمین پانی؛ پانی اور مٹی کی نامناسب دیکھ بھال وغیرہ شامل ہیں۔
ہمارا تقریباً ۶۷ئ۶ ملین ہیکٹر رقبہ، جس میں ۳۰ ملین ہیکٹر نہری علاقے بھی شامل ہیں،شورزدہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایک سے دو ملین ہیکٹر رقبہ سے ۲۰ ارب روپے کا سالانہ نقصان ہورہا ہے ۱؎۔ اس خوفناک صورت حال سے جلدازجلد اصلاحی تدابیر اختیار کرکے ہی نمٹاجاسکتا ہے جن میں طبیعی اور کیمیائی تدابیر شامل ہیں۔
اول الذکر تدابیر میں کچھ نقائص ہیں جیساکہ مطلوبہ پانی کی عدم دستیابی، مہنگی ترمیمات(amendments)، معاشی و فنی تعاون کی غیرموجودگی وغیرہ۔ ایسی صورت حال میں متبادل تدبیر زیادہ نمک کو برداشت کرنے والے پودوں اور فصلوں کی اقسام کی کاشت ہے۔ ایسا کرنا خراب زمین کے باوجود بہتر معاشی پیداوار کے حصول کا ضامن ہے۔
گندم پاکستان کی اہم نقد آورفصل ہے اور عا م طور پر یہ۲ء ۸ ملین ایکڑ رقبے پر کاشت کی جاتی ہے۔ اس کی سالانہ پیداوار۶ئ۱۶ ملین ٹن اور پیداواری اوسط ۲۰۴۶ کلوگرام فی ہیکٹر ہے۔ گندم کی کاشت کی اراضیات کا زیادہ تر حصہ سیم و تھور اور شور سے متاثر ہے جس سے پیداوار میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔ حکومت ہر سال ایسی زمینوں کی اصلاح کے لیے خطیر رقم خرچ کرتی ہے۔ شورزدگی کے تدارک کے لیے گندم کی اقسام کے انتخاب کی کوشش کی گئی ہے۔ اس انتخاب کا بڑا مقصد ایسی جینی نسل (Genotype)کو منتخب کرنا ہے جو شورزدہ زمینوں میںمشکل موسمی حالات میں بھی بہتر معاشی پیداوار دے۔ موسمی حالات کا انحصار درجہ حرارت؛ ہوا کی نمی؛ زمین کی اقسام؛ پی ایچ (pH) ،سیم و تھور اور انتظامی عوامل پر ہے۔
مندرجہ بالا مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے موجودہ تجربہ میں گندم کی تین مختلف اقسام کی قوت برداشت کا مطالعہ کیا گیا۔ اس تجربے میں سوڈیم کلورائیڈ کا انتخاب کیا گیا کیوں کہ ہمارے ہاں کی زمینوںمیں سوڈیم کی شرح بہت زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ اس تجربے میں خاص طور پر جس بات کا مطالعہ کیا گیا، وہ گندم کا فی صد اُگاؤ تھا۔ اس مطالعہ میں منتخب شدہ نمکیات کو برداشت کرنے والی قسم کا انتخاب شورزدہ زمینوں کو منافع بخش طریقے سے استعمال کرنے میں مدد دے گا۔
طریق کار (Methodology) :
یہ تجربہ شعبہ تحقیق شوریتی زراعت (Saline Agriculture)زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں کیا گیا۔ اس تجربے میں گندم کے بیج کے اُگاؤ پر نمکیات کا اثر دیکھا گیا۔ گندم کی تین قسمیں پاسبان ۔۹۰؛ ایل یو ۲۶ ایس اور سارک۔ ۱ استعمال کی گئیں جوسارک (SARC)سے حاصل کی گئی تھیں۔ تجربے کے لیے نمکیات کے درج ذیل تین طرح کے محلول استعمال کیے گئے۔
موصلیت:
(i) کنٹرول صفر ڈیسی سائمن فی مول(جہاں کوئی نمک نہیں تھا)
(ii) برقی ایصال ۵ ڈیسی سائمن فی مول
(نمک کا محلول تیار کرنے کے لیے سوڈیم کلورائیڈ کا نمک استعمال کیا گیا۔)
(iii) برقی ایصال ۱۰ ڈیسی سائمن فی مول
بیج کی نموسے پہلے صحت مند صاف ستھرے اور ایک جیسی جسامت کے بیجوں کو منتخب کیا گیا اور انھیں بالترتیب مکمل سولہ، چوبیس اور بتیس گھنٹوں کے لیے ململ کے کپڑے میں رکھ کربھگویا گیا تاکہ انھیں مناسب ہوا بھی ملے۔ ململ کے کپڑوں کو متعلقہ قسم سے نشان زدہ کرکے مختلف اقسام کے بیجوں کو پلاسٹک قابوں(Plastic trays)میں تقطیری کاغذوں (Filter Papers)پر ۳۲ سینٹی گریڈ درجہ حرارت پر رکھا گیا۔ ہرتقطیری کاغذکو ۱۲۰ درجہ کے زاویے پر تین حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ انھیں تین بیکروں میں اس طرح سے رکھا گیا کہ تینوں ایک ہی وقت میں نکال کر اُگائے جاسکیں۔ مقررہ وقت پر بھگوئے گئے بیجوں کو تقطیری کاغذوں پر اُگانے کے لیے قابوں(Trays) میں رکھا گیا۔ ہر ایک قاب میں ایک قسم کے ۲۰ تخموں یعنی بیجوںکو رکھا گیا۔ اس طرح سے تمام اقسام کو نمکیات کے مختلف درجوں اور بھگوئے گئے اوقات کے بالمقابل اُگایا گیا۔
متعلقہ قابوں میں ۵ ڈیسی سائمن فی مول اور ۱۰ ڈیسی سائمن فی مول کا محلول انڈیلا گیا۔ کنٹرول میں صفر ڈیسی سائمن فی مول کا تقطیرشدہ پانی استعمال کیا گیا۔
نمکیات کی مقدار کو برقرار رکھنے کے لیے تبخیر کے بعد جمع شدہ نمک کو خارج کردیاگیا۔ قابوں (Trays)میں باقاعدگی سے نمکیات کی مقدار کو داخل کیا گیا اور انھیںایک سرے سے ڈال کر دوسرے سرے سے خارج کردیا۔ یہ عمل دو سے تین بار دہرایا گیا تاکہ نمکیات کی ایک مستقل شرح برقرار رکھی جائے۔
چار سے سات دنوں میں بغیر نمکیات والی قاب (ٹرے) میں پچانوے فی صد بیج اُگ آئے۔ اس لیے دوسری قاب میں بھی اُگاؤ کی ۶ فی صد شرح کا حساب کیا گیا۔
نتائج اور مباحث(Results & Discussions):
گندم کی مختلف اقسام پر نمکیات کی مختلف شرحوں اور مختلف اوقات کے لیے بھگونے کے اثر کا جائزہ لیا گیا۔
بھگونے کا وقت (صفر گھنٹہ)
جہاں بیج بھگوئے گئے تھے نہ کوئی نمک ڈالا گیا تھا وہاں مقررہ دنوں میں قسم اول پاسبان ۔۹۰ ؛ قسم دوم سارک ۔ ۱ (SARC-1) اور قسم سوم ایل یو ۲۶ ایس کی شرح اُگاؤ بالترتیب ۹۵، ۹۰ اور ۸۵ فی صد رہی۔(گراف : ۱)
پہلے چار دن تک ۵۰ ڈیسی سائمن فی میٹر کی تمام اقسام میں سے کوئی بیج نہ اُگا۔ مقررہ دنوں میں سارک ۔۱ کی شرح اُگاؤ ۵۰ فی صد جبکہ باقی دونوں اقسام یعنی پاسبان۔۹۰ اور ایل یو ۲۶ایس کی شرح اُگاؤ ۳۰ فی صد مشاہدہ کی گئی۔
۱۰۰ ڈیسی سائمن فی میٹر کی برقی موصلیت پر سب سے زیادہ برداشت والی قسم سارک۔۱(SARC-1)ایک بارثابت ہوئی جس نے ۳۵ فی صد کی شرح اُگاؤ دکھائی۔ قسم اول اور قسم سوم کی شرح اُگاؤ بالترتیب ۲۵ اور ۳۰ فی صد رہی۔
بھگونے کا وقت (سولہ گھنٹے) نمک کے بغیر
سولہ گھنٹے والے بھگونے کے عمل(Treatment)میں پاسبان ۹۰ اور ایل یو ۲۶ ایس کے اُگاؤ کی شرح پچانوے فی صد تک تھی۔(گراف : ۲)
پچاس ڈیسی سائمن فی مکعب میٹر میںسب سے زیادہ شرح اُگاؤ ۵۵ فی صد سارک ۔ ۱ کی تھی۔ اس کے بعد ایل یو ۲۶ایس کی شرح اُگاؤ ۴۰ فی صد اور پاسبان۔ ۹۰ قسم اول ۳۰ فی صد شرح اُگاؤ کے ساتھ سب سے آخر میں تھی۔
۱۰۰ ڈیسی سائمن فی صد والے بھگونے کے عمل میں بھی یہی رجحان پایا گیا، جہاں سارک ۔ ۱ کی سب سے زیادہ ۴۰ فی صد تک شرح اُگاؤ تھی جبکہ ایل یو ۲۶ایس ؛ ۳۵ فی صد کے ساتھ دوسرے اور پاسبان۔ ۹۰ تیس فی صد شرح اُگاؤ کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی۔۳؎
بھگونے کا وقت (چوبیس گھنٹے)
چو بیس گھنٹوں کے لیے بھگوئے گئے بیج بغیر نمک والے بھگونے کے عمل (Treatment) میں تمام اقسام کے بیج پہلے دن ہی اُگ آئے۔ ان کی شرح اُگاؤ کی ترتیب اس طرح سے تھی۔ سارک۔ ۱ کی شرح اُگاؤ سب سے زیادہ ۸۵ فی صد تھی جبکہ ایل یو ۲۶ ایس اور پاسبان ۔۹۰ کی شرح اُگاؤ ۸۰ فی صد تھی۔ ۵۰ ڈیسی سائمن فی میٹر میں پہلے دن روئیدگی نہیں ہوئی۔ مجموعی طور پر سارک۔ ۱ کی شرح اُگاؤ ۷۰ فی صد ؛ ایل یو ۲۶ایس کی پچاس ۵۰ فی صد اور پاسبان۔ ۹۰ کی ۴۵ فی صد تھی۔(گراف : ۳)
ـ۱۰۰ ڈیسی سائمن فی میٹر برقی موصلیت پر بھی یہی رجحان پایا گیا۔ سارک۔۱ بیجوں کی شرح روئیدگی ۵۵ فی صد؛ ایل یو ۲۶ ایس ۴۵ فی صد شرح اُگاؤ کے ساتھ دوسرے نمبر اور پاسبان ۔۹۰ کی شرح اُگاؤ ۴۰ فی صد تیسرے نمبر پرتھی۔۴؎ ،۵؎
بھگونے کا وقت (بتیس گھنٹے)
۳۲ گھنٹوں کے لیے بھگوئے گئے تمام اقسام کے بیجوں نے بھی پہلے دن ہی اُگنا شروع کردیا۔ سب سے زیادہ شرح ۹۰ فی صد ایل یو ۲۶ ایس اور سارک۔ ۱ اور اس کے بعد پاسبان ۔۹۰ کی ۷۵ فی صد تھی۔(گراف : ۴)
۵۰ ڈیسی سائمن فی میٹر برقی موصلیت میں سے بہتر سارک ۔۱ (SARC-1) ۷۰ فی صد شرح اُگاؤ کے ساتھ اور سب سے کم پاسبان ۹۰ اپنی ۴۰ فی صد شرح اُگاؤ کے ساتھ تھی۔ ایل یو ۲۶ایس کی روئیدگی کی شرح ۵۰ فی صد تھی۔ ۶،؎ ۷،؎ ۸؎
۱۰۰ ڈیسی سائمن فی میٹر برقی موصلیت میں تمام اقسام میں تین دن تک کوئی بیج نہ اُگ سکا۔ سب سے بہتر شرح اُگاؤ۴۰ فی صد سارک۔۱ کی تھی۔ ایل یو ۲۶ایس اور پاسبان ۔۹۰ کی شرح روئیدگی بالترتیب ۳۵ اور ۳۰ فی صد تھی ۔۹؎ ـ ،۱۰؎

 

حاصل تحقیق (Conclusion)
زمین کی شورزدگی پاکستانی زراعت کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ پاکستان میں تقریباً ۶۷ئ۶ ملین ہیکٹر رقبہ اس سے متاثر ہے جو قومی معیشت کے لیے ۲۰ ارب روپے سالانہ کے نقصان کا سبب ہے۔ سارک۔ ۱ سب سے زیادہ نمک برداشت کرنے والی قسم ثابت ہوئی۔ اس کی شرح اُگاؤ نمکیات کی دونوں سطح پر سب سے زیادہ تھی۔ نتائج سے ثابت ہوا کہ بھگوئے گئے بیج بغیر بھگوئے گئے بیجوں سے نمک برداشت کرنے میں زیادہ بہتر تھے۔ بھگونے کے اوقات میں ۲۴ گھنٹوں کا وقت باقی اوقات یعنی ۱۶ اور ۳۲ گھنٹوں سے بہتر تھا۔

 

اصطلاحات (Terminology)

Salinity
شورزدگی
Seed
تخم ؛بیج
Methodology
طریق کار؛طریقہ مطالعہ
Sieman
سائمن
Decisiemen
ڈیسی سائمن
Plastic Tray
پلاسٹک قاب؛پلاسٹک ٹرے
Filter Paper
تقطیری کاغذ
Genotype
جینی نسل
PH
فی صد تیزابیت
Filtered
تقطیرشدہ؛ مقطر
Treatment
عمل تیاری ؛برتاؤ
Electrical Conductance
برقی موصلیت
Germination percentage
شرح روئیدگی؛ شرح اُگاؤ
Soil Column
زمینی کالم


حوالہ جات (References)
1. Qureshi, R.H., R.Ahmad, M.Ilyas and Z. Aslam; 1980; Screening of wheat (Triticum aestium) for salt tolerance; Pak. J.Agri. Sci., 17:19-26.

2. Anonymous (2009-2010); Economic Survey of Pakistan.
3. Rashid, A. and S.D.Butt; 1963; Effect of salinity on growth, yield and composition of wheat; Res. Studies, WPAU, Lyallpur; p148-154
4. Aslam M., R.H.Qureshi, N.Ahmad and M.A.Kausar; 1989; Relative growth rate and ion transport in rice under saline environment; Pak. J. Bot; 23:1-10.
5. Warne, R., R.D. Guyl Rollns and D.M.Reid; 1990; The effects of sodium sulphate and sodium chloride on growth, morphology, photosynthesis and water use efficiency of chenopodium
rubrum; Bot; 68:999-1006.
6. Schachman, D.D. and R.Munns; 1992; Sodium accumulation in leaves of Triticum species that differ in salt tolerance; Aust. J.Plant Physiol; 19:331-40
7. Rengel, Z;1992; The role of calcium in salt toxicity. Plant Cell and Environ.; 15:625-632.
8. Nasim, M., R.H.Qureshi and M.Aslam; 1993;Screening of different wheat strains for salt tolerance.Pak.J.of Agri. Sci.; 30(2):221-223.
9. Khan, G.S;1993; Characterization and genesis of saline sodic soils in Indus Plains of Pakistan; Ph.D. Thesis; Deptt. Soil Sci., Univ. Agri., Faisalabad.
10. Qureshi, R.H., A.Aslam, Mustafa and J.Akhtar; 1991; Some aspects of physiology of salt tolerance in wheat (Triticum aestivum); Pak. J .Agri. Sci.; 28:199:206.